Sunday, March 29, 2015

حوثی کون ہیں

جو لوگ تفصیل سے یمن کے حالات اور وہاں ہونے والی بغاوت کے بارے جاننا چاہتے ہیں وہ یہ تحریر ضرور پڑھیں
حوثی کون ہیں ?

یہ مسلک کے اعتبار سے زیدی شیعہ ہیں۔ حضرت علی کے نسب سے ایک فقیہ زیدبن علی بن حسین کی اتباع کرتے ہیں اور انہیں اپنا امام مانتے ہیں۔ یہ خود کوشیعہ کہتے ہیں لیکن انکے عقائد ونظریا ت اثناعشری شیعوں سے زیادہ اہل سنت سے ملتے ہیں۔ ان کا اہل سنت سے بنیادی اختلاف امامت (خلافت) کے قضیے پر ہے۔ان کا ماننا ہے کہ امامت کا منصب خاندانِ علیؓ کے ساتھ مختص ہے۔ہاشمی کے علاوہ کوئی شخص خلافت کا اہل نہیں ہوسکتا۔
زیدی شیعہ کسی صحابی کے لئے نامناسب لفظ استعمال نہیں کرتے۔یہ سب کا احترام کرتے ہیں۔یہ اہل سنت کی مساجد میں نمازیں بھی ادا کرتے ہیں۔انکے کئی ایسے جلیل القدر فقہاء گزرے ہیں ہیں جنکی کتابوں سے اہل سنت استفادہ کرتے ہیں۔اسکی بہترین مثال علامہ شوکانی ہیں۔یہ زیدی عالم تھے اور اور یمن کے تھے۔انکی لکھی ہوئی کتاب نیل الاوطار آج بھی اہل سنت کے مدارس کی لائبریریوں کی زینت ہے۔
یہ چونکہ امامت آلِ علی کا حق سمجھتے ہیں اس لئے انہوں نے عباسی خلیفہ مامون کے دور میں ایک زبردست انقلابی تحریک چلائی تھی۔مقصد یہ تھا کہ خلافت عباسیوں سے چھین کر کسی صالح ہاشمی کو سونپ دی جائے۔مامون نے طاقت سے تحریک کو کچلنا چاہا مگر ناکام ہو۔بالآخر معاہدے کے تحت اس نے یمن کاسارا علاقہ زیدیوں کو دے دیا جہاں انہوں نے اپنی الگ سلطنت قائم کرلی۔ اُس وقت سے لے کر 1962 کے فوجی انقلاب تک کسی نہ کسی شکل میں یہ اقتدار کا حصہ رہے ہیں۔عثمانی خلافت کے دورانیے میں بھی یمن کے بڑے حصے پر قابض رہے۔یہی وجہ ہے یمن ان کا مضبوط گڑھ ہے۔
انکی اکثریت یمن کے ایک علاقے صعدہ میں ہے جبکہ غیرمعمولی تعداد دارالحکومت صنعاء میں بھی رہائش پذیر ہے۔زیدی شیعہ یمن کی آبادی کا 30 فیصد ہیں۔
کچھ عرصے سے حوثیوں نے یمن میں مسلح جدوجہد شروع کررکھی ہے۔ جس کی وجہ سے وہاں کی حکومت معطل ہوکر رہ گئی ہے۔حتی کہ چند دن قبل انہوں نے دارالحکومت صنعاء پر بھی قبضہ کیا جسے بعد میں چھڑا لیا گیا۔
دراصل 1986 میں زیدی شیعوں نے یمن میں اپنے مذہب کی تبلیغ کے لئے ایک جماعت تشکیل دی،جس کا نام اتحاد الشباب تھا۔اس میں کئی سرکردہ زیدی علماء شامل تھے، جنمیں ایک نام بدرالدین الحوثی کاتھا۔ بدرالدین الحوثی اپنے وقت کے جید عالم سمجھے جاتے تھے۔چار سال تک جماعت کی سرگرمیاں صرف دعوت و تبلیغ تک محدود رہیں۔
1990 میں سعودیہ کی کوششوں کی بدولت شمالی اور جنوبی یمن کے درمیان اتحاد عمل میں آیا۔نقشہ تبدیل ہوگیا۔یمن ایک ہوگیا۔ اگرچہ اقتداربغیرانتخابات کے شمالی حصے کی جھولی میں آیاکیونکہ شمال کا حاکم علی عبداللہ صالح تھا جو سعودی عرب کا تابعدار تھا۔جنوب وسائل سے مالامال ہے لیکن اسکی جھولی میں کچھ نہیں آیا۔اسی لئے جنوب میں دوبارہ علیحدگی کی تحریک چل رہی ہے۔
1990 کے اتحاد کے بعد سیاسی جماعتوں سے پابندی اٹھا لی گئی۔کئی نئی سیاسی جماعتیں وجود میں آئیں۔زیدی شیعوں نے اپنی الگ سیاسی جماعت بنانے کی ضرورت محسوس کی۔اسکے لئے نئی سیاسی جماعت تشکیل دینے کی بجائے سابقہ تبلیغی جماعت اتحادالشباب ہی کو نیا نام دے کر میدان میں اتار دیا۔اس کا نیا نام حزب الحق تجویز کیاگیا۔جماعت کی صدارت کے لئے حسین بدرالدین الحوثی کو منتخب کیا گیا۔ یہ زیدی عالم بدرالدین الحوثی کا بیٹا تھا۔یہ 1993 اور 1997 میں دوبار سینیٹر منتخب ہوا۔ جماعت ابھی تک ایک محب وطن اور عرب دوست جماعت تھی۔ یہ اہل سنت کے ساتھ مکمل تعاون کرتی تھی۔
اس دوران ایک واقعہ رونما ہوا۔ زیدی علماء نے فتوی جاری کیا کہ دورحاضرمیں امامت (خلافت) کے استحقاق کے لئے ہاشمی نسب کی شرط غیر ضروری ہے۔ بدرالدین الحوثی اس فتوے کی مخالفت میں کھڑا ہوگیا۔اس نے کہا یہ فتوی زیدی عقائد میں تحریف کے مترادف ہے۔ اسے خطرہ لاحق ہوا کہ اس فتوے کے بعد زیدیہ مسلک اہلِ سنت میں ضم ہوجائے گا،اور اس فرقے کی شناخت مکمل طور پر ختم ہوجائے گی۔لہذا اس نے اپنی تقریروں میں زیدیہ مسلک کو اثناعشریہ کے قریب تر ثابت کرنا شروع کردیا۔ حالانکہ یہ خلاف واقع تھا مگر مخالفت میں اسکے افکار متشددانہ ہوگئے۔وہ معتدل زیدی شیعوں کو اثناعشریہ کی طرف مائل کرنے لگا۔
یمن کی حکومت نے اسکے طرزِعمل کا سخت نوٹس لیا۔ جسکی وجہ سے وہ یمن سے ایران منتقل ہوگیا۔ تہران اسے راس آیا۔ اسے ہر طرح کے تعاون کی یقین دہانی کرائی گئی۔ اس کا لٹریچر یمن کے زیدی شیعوں میں پھیلنے لگا۔بالخصوص صعدہ میں اسے قبول عام حاصل ہوا۔
دوسری طرف حسین بدرالدین الحوثی 1998 میں حزب الحق سے الگ ہوگیا۔ اس نے اپنی نئی سیاسی جماعت بنا لی۔ابتداء میں وہ حکومت کا حامی تھا لیکن 2002 میں اس نے حکومت کے لئے مشکلات پیدا کرنی شروع کردیں۔وہ آئے روز پریس کانفرینس کرتا اور حکومت کی پالیسیوں پر کڑی تنقید کرتا۔
اس دوران زیدی علماء نے تہران میں مقیم بدرالدین الحوثی کو یمن واپس آنے پر راضی کرلیا۔حکومت نے بھی اجازت دے دی۔ یوں بدرالدین الحوثی یمن واپس آگیا۔
2003میں امریکہ نے عراق پر حملہ کردیا۔ یمن سمیت مشرق وسطی کے تمام عرب ممالک نے اس حملے کی غیرمشروط حمایت کااعلان کیا۔حسین بدرالدین الحوثی نے حکومت کے اس فیصلے کی شدید مخالفت کی۔اس کا کہنا تھا عراق پر حملہ ظلم ہے۔یمن کو اسکی حمایت نہیں کرنی چاہئے۔ حکومت نے اسکی باتوں کی کوئی پروا نہیں کی۔ اس نے دبایؤ ڈالنے کے لئے حکومت مخالف مظاہروں کا اعلان کردیا۔ حکومت نے ردِعمل میں بھرپور طاقت کا استعمال کیا۔یہ صراحتا غیردانشمندی تھی۔ 30 ہزار فوجیوں کو آپریشن کے لئے اُتار دیا گیا۔جنگی جہازوں اور ٹینکوں کا بے دریغ استعمال ہوا۔یہ خانہ جنگی تھی۔کئی دن لڑائی جاری رہی۔ نتیجے میں حسین بدرالدین الحوثی سمیت سینکڑوں لوگ مارے گئے،اور تمام اسلحہ بھی ضبط کرلیا گیا۔
حسین بدرالدین الحوثی کی موت کے بعد تمام زیدی شیعہ یکجان ہوگئے۔اپنے لیڈر کی جانب نسبت کی وجہ سے حوثی کہلانے لگے۔ جماعت کی قیادت اس کے والد بدرالدین الحوثی نے سنبھال لی۔ اس وقت مصلحت کے پیش نظر جماعت زیر زمین چلی گئی۔ لیکن حوثیوں میں انتقام کا جذبہ باقی تھا۔انہوں نے خفیہ طور پر منظم ہونا شروع کردیا۔ادھر 2008 میں قطر کے توسط سے حکومت اور حوثیوں کے درمیان صلح ہوگئی۔انہیں ضبط کیا ہوا اسلحہ بھی واپس کردیا گیا۔اسکے بعد حکومت مطمئن ہوگئی شاید چنگاری بجھ گئی ہے۔اور بجھ بھی گئی ہوتی اگر انہیں باہر سے شہہ نہ ملتی۔ایران شدت سے منتظر تھا۔
ایران کے لئے یہ صورتحال آئیڈیل تھی۔حوثیوں کا سربراہ اب ایک ایسا شخص تھا جو تہران نواز تھا،جس نے کئی سال وہاں بتائے تھے۔
دوسری طرف یمن کے جنوبی حصے کے عوام بھی حکومت کی زیادتیوں کی وجہ سے ناخوش تھے،انہوں نے بھی حوثیوں کے ہاتھ میں ہاتھ دیدیا۔اب وہ تمام لوگ جو حکومت مخالف ہیں سب حوثی کہلاتے ہیں چاہے وہ شیعہ ہوں یا سنی،اگرچہ اکثریت شیعہ ہیں اور کمان بھی انہی کے ہاتھ میں ہے۔
سعودیہ کے تینوں اطراف میں آگ دہک رہی ہے۔ ایران پوری طرح اسکا محاصرہ کرچکا ہے۔مشرق سے کویت اور بحرین، شمال میں عراق اور جنوب سے یمن۔

ایران اور سعودیہ کی اس جنگ میں نہ خادم الحرمین کو کوئی آنچ آئے گی نہ معزز خامنئی کی دستار پہ دھبہ لگے گا۔ماراجائے گا تو بارہواں کھلاڑی جسکا کوئی کردار ہی نہیں۔ میراپاکستان۔